Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر8

ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر وہ اندر تک جلا تھا۔
عادل نے ایک کٹیلی نگاہ عدیل پر ڈالی، تنفر سے عنقا کے بازو کو جھٹکا دے کر دور کیا اور ایک ناگوار نظر، ان دونوں پر باری باری ڈالتا ، وہاں سے چلا گیا۔
"کیا کر رہی تھیں اس کے ساتھ۔۔؟؟" عدیل غضب ناک ہوا، اور لفظوں کو چباتے ہوئے غصے سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
"ک کچھ نہیں۔۔وہ میں۔۔ میں تو اپنے لیے کھانا لینے آئی تھی۔۔" عنقا ڈرتے ہوئے بولی۔
وہ بے چاری تو مفت میں ہی پھنسی تھی۔
"اچھا۔۔!! تم شاید مجھے اندھا سمجھتی ہو۔۔!! ویسے تمہاری اوقات ہی یہی ہے کہ ایک مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات نبھاتی پھرو۔۔!!" عدیل، طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے ہوئے زہریلے لہجے  میں بولا۔
اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی، کھلے عام، اس کے کردار پر چوٹ کی تھی، یہ سن کر عنقا کو شدت کا غصہ آیا، اس کا سارا ڈر اور خوف کہیں غائب ہوا اور نجانے اس میں کہاں سے اتنی ہمت آئی کہ اس نے، ایک زور دار تھپڑ عدیل کے منہ پر دے مارا۔
"It's enough Adeel" 
وہ غصے سے چلائی۔۔ اور اسے حیرت زدہ  چھوڑ کر ، تیز تیز قدم بڑھاتی، اپنے کمرے کی طرف گئی۔
وہ بے یقینی سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ اس کے جاتے ہی ، اِس کا سکتہ ٹوٹا، وہ اپنے حواس میں واپس لوٹا تھا اور لوٹتے ہی ، وہ غصے میں دندناتا ہوا، عنقا کے پیچھے گیا۔
×××
وہ اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑا زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا، "دروازہ کھولو۔۔!! عنقا۔۔!! میں کہتا ہوں۔۔ کھولو دروازہ۔۔!!" وہ گلا پھاڑ کر بلند آواز میں دھاڑ رہا تھا۔
اس کی مام کو اسکی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن وہ شاید اس کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔ اگر وہ مداخلت کر بھی لیتیں تو وہ جانتی تھیں کہ اس وقت عدیل جس حالت میں ہے۔۔ وہ مزید کوئی بگاڑ پیدا کرلے گا۔۔سو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے۔۔ اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر ، اپنے مشاغل میں مصروف رہیں، یہی حال مصطفیٰ صاحب کا بھی تھا۔
عدیل کے، پانچ منٹ تک مسلسل دروازہ بجانے کے باوجود بھی، عنقا اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔۔ نہ ہی اس نے، اٹھ کر دروازہ کھولا، بلکہ وہ تب سے اب تک ، کمرے کے ایک کونے میں دُبک کر بیٹھی تھی۔۔ اور مسلسل رو رہی تھی۔ 
اس کی حالت عجیب تھی ، وہ ڈر بھی رہی تھی اور نہیں بھی۔۔ وہ اس سے بھاگنا بھی نہیں چاہتی تھی اور اس میں سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔
×××××
"عنقا۔۔!! میں آخری بار کہہ رہا ہوں۔۔ دروازہ کھولو۔۔!!" وہ بری طرح بپھرا تھا۔۔ اور اب ،اچھا خاصا زچ ہو چکا تھا۔
"اگر نہیں کھولا تو۔۔؟؟" نہ چاہتے ہوئے بھی ، اس کی آواز میں، ہلکی سی کپکپاہٹ در آئی تھی۔
"نہیں کھولا تو میں دروازہ توڑ کر اندر آجاؤں گا اور پھر تم اپنا حشر دیکھنا۔۔!! زندہ نہیں بچو گی میرے ہاتھوں۔۔!!" اس نے دھمکی دی۔
"نہیں۔۔ پھر میں نہیں کھولتی۔۔ دروازہ توڑو اور آجاؤ۔۔!!" وہ دروازے کے پاس آ کر کھڑی ہوئی اور سکون سے مکالمے بازی کرنے لگی۔۔
"عنقا۔۔!!!" وہ غصے سے دھاڑا۔۔ اب بس ، اس کی برداشت ختم ہوتی جارہی تھی۔
"کیا ہے۔۔!!" اس نے ڈھیٹوں کی طرح، سکون سے ، الٹا سوال کیا، جس پر عدیل کو مزید تپ چڑھی۔
"دروازہ کھولو۔۔!!"اس نے چِڑھ کر کہا۔
"اچھا۔۔ اگر کھول دیا تو کیا گارنٹی ہے کہ تم مجھے کچھ نہیں کہو گے۔۔!!" اس نے متوقع خدشہ سامنے رکھتے ہوئے، شرط رکھنے والے انداز میں کہا۔
"تمہاری تو۔۔۔!! دروازہ کھولو۔۔!!" اس نے دروازے پر زور سے لات مارتے ہوئے کہا۔
"اچھا بابا۔۔!! کھولتی ہوں۔۔ لیکن پہلے وعدہ کرو۔۔ مجھے کچھ کہو نہیں کہو گے۔۔!!" اس نے باقاعدہ شرط رکھی۔
عدیل کو اس پر بے تحاشا غصہ آ رہا تھا، اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسی حرکتیں کرے گی۔۔!! 
اور دیکھو تو۔۔ میڈم۔۔ شرطیں ایسے رکھ رہی ہے جیسے وہ اس کی لاڈلی بیوی ہو۔۔ اور وہ ابھی ہاں میں ہاں ملاتا ااس کی بات مان جائے گا۔
اس کا تھپڑ والا غصہ ،راستہ بھٹک کر کہیں اور ہی چلا گیا، اب تو بس اسے ایک ہی ٹینشن تھی۔۔ اور وہ بھی دروازہ کُھلوانے کی۔۔!!
وہ سارا دن ، اِدھر اُدھر آوارہ گردیاں کرتا رہا تھا، اور اسے جب شدت سے آرام کی طلب محسوس ہوئی تو وہ گھر لوٹا، گھر آنے کے بعد ایک کے بعد ایک ڈرامے نے، اس کی بچی کُچی انرجی بھی ہڑپ لی تھی۔
"نہیں کھا رہا میں تمہیں۔۔!! اب کھولو دروازہ۔۔!!" وہ سُلگ کر بولا۔
"نہیں ایسے نہیں۔۔ پہلے وعدہ کرو۔۔" عنقا کی ڈھٹائی عروج پر تھی،
اس نے اپنا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر رکھا تھا کہ اس کے وعدہ کرتے ہی وہ سچ مچ میں کھول دے گی، لیکن پھر پتہ نہیں اسے کیا سوجھی اس نے پورے دس سیکنڈ تک ہینڈل کو گھورا، اور مزید ڈائیلاگ بازی کا ارادہ ترک کرتے، تھوڑا ڈرتے ڈرتے ہینڈل گھمایا۔
وہاں عدیل، دروازہ توڑنے کی غرض سے تھوڑا پیچھے سرکنے کے بعد تیزی سے آگے کو لپکا تھا۔۔
اسی لمحے عنقا بھی دروازہ کھول چکی تھی، نتیجتاً، عدیل کا توازن بگڑنے سے، دھڑام سے ، سامنے کھڑی عنقا سمیت زمین بوس ہوا۔
"ہائے میری کمر۔۔!!" عنقا چیخ کر بولی۔

   1
0 Comments